Skip to main content

فوربز کی فہرست میں شامل پاکستانی اور ان کے کارنامے

سنہ 2018 کے لیے ایسے ہی نوجوان فنکاروں، سائنسدانوں اور تاجروں کی فہرست میں شامل نو پاکستانیوں میں پہلا نام سعدیہ بشیر کا ہے۔
سعدیہ بشیر
فوربز کی فہرست میں شامل سعدیہ بشیر کے سر پاکستان میں ویڈیو گیمز انڈسٹری کی بنیادیں مضبوط کرنے کا سہرا ہے۔
سعدیہ پاکستان میں نوجوانوں کو ویڈیو گیم ڈیزائنگ کی تربیت دینا چاہتی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی سیلیکون ویلی میں ویڈیو گیمز کے ڈیزائنرز سے ملنے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان میں تربیتی پروگرامز منعقد کروانا چاہتی ہیں۔
سعدیہ بشیر پاکستان میں سالانہ گیمز کانفرنس کرواتی ہیں جس میں بین الاقوامی سپیکرز بھی سکائپ پر شامل ہوتے ہیں۔
وہ ہر سال سماجی معاملات سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے گیمز کا مقابلہ بھی کرواتی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے کینسر کے مریضوں کی جانب سے مرض کی شناخت، پانی میں آلودگی کا سبب بننے والی چیزوں سے متعلق آگہی اور امن کے پھیلاؤ اور اسے متاثر کرنے والے عناصر کی شناخت پر گیمز بنائی گئیں۔
وہ خواتین کے مسائل سے متعلق ایک گیم کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں جس میں بحیثیت عورت یہ گیم کھیل کر ایک عورت کے مسائل اور فیصلوں سے آگہی ملے گی۔



طبی میدان کے ہیرو: اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ
سنہ 2006 عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کلے مطابق پاکستان ان 57 ممالک میں شامل تھا جہاں طبی میدان میں عملے اور مہارت کی شدید قلت تھی۔

اسی ضرورت کی پیشِ نظر رکھتے ہوئے دو پاکستانی تخلیقی دماغوں نے نیوروسٹک نامی ادارہ بنایا۔

محمد اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ دونوں کی عمر 24 برس ہے اور اس ادارے کے قیام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے کم خرچ اور اعلیٰ معیار کے طبی آلات اور مصنوعی اعضا فراہم کرنا ہے۔

نیوروسٹک طبی خدمات کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان، ایران اور شام کے ان علاقوں میں مصنوعی اعضا کی فراہمی کی خدمت بھی انجام دیتا ہے جہاں لوگوں کی بحالی کی سہولیات تک رسائی کم ہے یا بالکل نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ابراہیم علی شاہ کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں ملنے والے مصنوعی اعضا اصلی اعضا کی جگہ تو لے لیتے ہیں لیکن یہ کام نہیں کر سکتے۔

’پہلے دستیاب مصنوعی اعضا کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا اترنا، گاڑی چلانا، بھاگنا یا پتھریلے رستوں پر چلنا ممکن نہیں تھا۔ ہمارے بنائے گئے اعضا میں حقیقی اعضا کی طرح گرفت ہے۔ اور ان کی قیمت بھی بہت کم ہے۔ لاکھوں میں ملنے والی چیز اب ہزاروں میں دستیاب ہے۔‘


ان کا مزید کہنا تھا ’ہمارے دفاتر لاہور اور اسلام آباد میں ہیں۔ یہ تمام مصنوعی اعضا مقامی طور پر فیصل آباد میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اعضا تو پہلے سے یہاں بنتے تھے ہم نے انہیں رہنمائی دے کر منصوعات کو پہلے سے بہتر بنایا ہے۔‘

انٹرنیٹ پر کاروبار
عدنان شفیع اور عدیل شفیع
28 سالہ عدنان شفیع اور 29 سالہ عدیل شفیع دونوں بھائی ہیں جنہوں نے سنہ 2015 میں پرائس اوئے کے نام سے انٹرنیٹ پر ایک پلیٹ فارم بنایا جہاں پاکستان کے نسبتاً چھوٹے شہروں میں برقی آلات کے قیمیوں میں تقابل کیا جا سکتا ہے۔

اس پلیٹ فارم کے ذریعے ریٹیلرز جو مارکیٹ میں رائج قیمتوں کی معلومات مل جاتی ہیں جبکہ صارفین کو اچھی قیمت پر اشیا۔ اس سے پہلے ای کامرس سٹورز کی توجہ صرف بڑی شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد ہی رہتی تھی۔

ان کی اس ویب سائٹ کو گذشتہ ماہ 805000 لوگوں نے دیکھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عدیل شفیع نے فوربز کی جانب سے پذیرائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب مزید بہتر کام کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا ’ایک مرتبہ اپنے کمپنی کے ملازمین کو تحفے میں آئی فون دیے تو تمام تر تحقیق کے باوجود خریداری کر لینے کے بعد علم ہوا کہ ایک جگہ سے مزید سستے فون مل رہے تھے۔ اس بات سے ہمیں احساس ہوا کہ ٹیکنالوجی کی معلومات ہونے کے باوجود ہم نے مزید بچت کا موقع گنوا دیا۔ اس لیے ہم نے مزید تحقیق کی کہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی کتنی ضرورت ہے۔ اس کے ہمیں کافی حوصلہ افزا نتائج ملے۔‘

عدیل شفیع کا کہنا تھا ’ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ کام ہو رہا تھا تو ہم نے پاکستان میں بھی یہی کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہمارے پارٹنر سٹور ہیں۔ جہاں ہم ایسے سٹور کو رجسٹر کرتے جو ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے اور صارفین کی ضروریات پورا کرنے کا اہل ہوتا ہے۔`


عدیل کے بقول ’ہر کسی کو رجسٹر کرنا ناممکن ہے کیونکہ آن لائن شاپنگ میں اعتبار بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری ویب سائٹ اشیا کی قیمتوں کے تقابل کے ساتھ ساتھ رجسٹر شدہ سٹورز کی مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہے اور یہ بھی کہ اس سٹور سے مصنوعات کتنے وقت میں صارف تک پہنچا دی جائیں گی۔‘

حمزہ فرخ
پاکستان کے بیشتر دیہاتوں میں پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو گھنٹوں پیدل سفرکرنا پڑتا ہے۔ بوندِ شمس کے خالق اسی چیز کو بدلنا چاہتے تھے۔

حمزہ فرخ 1998 میں چکوال کے ایک نواحی گاؤں میں کنویں کا آلودہ پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہو گئے تھے اور امریکہ میں دورانِ تعلیم جب انہیں کسی سماجی منصوبے پر کام کرنے کا موقع ملا تو انہیں اپنے گاؤں کا خیال آیا۔

ان کے شمس پانی نام کے اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے ایسے غریب علاقوں میں صاف پانی کی کمی کو پورا کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت شمسی توانائی سے چلنے والے دو کنوئیں بنائے گئے جو ایک گاؤں کے 1500 افراد کو صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔


ہر ایک پمپ روزانہ 5000 لوگوں کے لیے صاف پانی نکالنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ وہ اب تک ایسے تین منصوبے لگا چکے ہیں اور انھیں بعد میں مقامی لوگوں کے حوالے کا کر دیا جاتا ہے۔ 24 سالہ حمزہ فرخ ویلیئم کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

27th INTERNATIONAL CULTURAL EXHIBITION WITH FULL COLORS OF INTERNATIONAL CULTURES INAUGURATED AT IIUI

Islamabad ( By Asghar Ali Mubarak ) The 27th International Cultural Exhibition of International Islamic University Islamabad (IIUI) has inaugurated by H.E. Nawaf Saeed Ahmad Al-Malki, Ambassador of Royal Kingdom of Saudi Arabia at IIUI Sector H-10 Campus of University. H.E. Yao Jing, Ambassador of China was the Guest of honor at this occasion. The ceremony was also attended by Ambassadors of Kenya, Thailand, Turkey, Afghanistan, Mauritius, Oman, Yamen, Egypt and Somalia. Academicians and administration heads of the University including large number of faculty members and students were also present during the ceremony. Saudi Ambassador, speaking during the ceremony said that educational institutions are best platforms for building strong brotherly relations among nations. He added that students from more than fifty nations are availing facility of knowledge here at IIUI which has become an international platform for students across the globe. Al-Malki congratulated IIUI administration